وائس چانسلرز کمیٹی کا اجلاس، ایچ ای سی کی خود مختاری کا تحفظ یقینی بنانے پر زور

ملک کی سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز نے حکومت پر زور دیا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے آرڈیننس 2002 کو اصل صورت میں بحال کیا جائے اور اعلیٰ تعلیمی کمیشن (ایچ ای سی) کو مزید مضبوط بنانے کےلیے اقدامات کیے جائیں تاکہ اعلیٰ تعلیمی شعبے درست اور مؤثر انداز میں معاشی و سماجی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خان کی صدارت میں منعقد ہونے والے 48ویں وائس چانسلرز کمیٹی اجلاس میں جامعات کے سربراہان نے زور دیا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں اعلیٰ تعلیمی شعبے میں ہونے والی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنا اور بڑھانا ہے تو ایچ ای سی کو مزید مستحکم کرنا ازحد ضروری ہے۔

انہوں نے ایچ ای سی آرڈیننس میں مجوزہ ترامیم کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکومت اقتصادی ترقی میں اعلیٰ تعلیمی شعبے کے کردار کو مؤثر بنانے کےلیے ایچ ای سی کی خودمختاری کو یقینی بنائے۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ آرڈیننس میں تجویز کردہ ترامیم کو لایا گیا تو یہ اب تک کی جانے والی ترقی کو بڑا دھچکا ہوگا۔

جامعات کے سربراہان نے اعلیٰ تعلیمی شعبے کی مالی و انتظامی پر تفصیلی گفتگو کی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ جامعات کی وفاقی فنڈنگ میں اپنا حصہ ڈالیں۔

چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد نے بھی آن لائن اجلاس میں شرکت کی اور وائس چانسلرز کو ٹی ٹی ایس اور بی پی ایس ماڈلز، ایچ ای سی کے معیار تعلیم و تحقیق میں بہتری کے لیے اقدامات اور ایچ ای سی آرڈیننس میں مجوزہ ترامیم کی بازگشت کے حوالے سے تازہ صورتحال کے حوالے سے آگاہ کیا۔

انہوں نے قومی اداروں کو مستحکم بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مختلف ممالک ایچ ای سی پاکستان کے طرز پر اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کررہے ہیں۔

جامعات کے معاشی مسائل پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اقتصادی استحکام کے حصول تک نئی جامعات اور کیمپس نہیں بنانے چاہئیں۔

انہوں نے وائس چانسلرز پر زور دیا کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مالی و انتظامی نظام کو یقینی بنایا جائے۔

ڈاکٹر مختار احمد نے زور دیا کہ جامعات کی صلاحیتوں پر اعتماد بڑھانے کی ضرورت ہے کہ متعلقہ حلقے پالیسی سازی میں جامعات کے بطور تھنک ٹینک کردار کے لیے جامعات کی طرف آئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمار ے نوجوانوں میں بیش بہا صلاحیتیں موجود ہیں تاہم ان میں قومی و بین الاقوامی مارکیٹ کی ضروریات سے ہم آہنگ صلاحیتیں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ایچ ای سی جلد کالجوں کے الحاق کا سلسلہ بند کر دے گا کیونکہ غیر معیار کالجوں کے سبب معیار تعلیم متاثر ہو رہا ہے۔

انہوں نے ٹی ٹی ایس اور بی پی ایس ماڈلز کے مسائل کے حل کے لیے وائس چانسلرز سے باقاعدہ رائے طلب کی۔

انہوں نے جامعات کے سربراہان کو آگاہ کیا کہ ایچ ای سی جامعات کی لائبریریوں میں ”سیرت کارنر“ قائم کرنے کے منصوبے پر کام کررہا ہے تاکہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کو عام کیا جائے۔

وائس چانسلرز فورم نے وائس چانسلر سرچ کمیٹیوں کے کردار کو مؤثر بنانے، یونیورسٹی ایکٹ، پیشہ ورانہ ایکریڈیئیشن کونسلز کے ذریعے معیار تعلیم کی بہتری، طلباء سوسائیٹیوں کی بحالی اور پروفیسر آف پریکٹس کے نظریے پر بھی اپنی آراء کا تبادلہ کیا۔

انہوں نے اتفاق کیا کہ اعلیٰ تعلیمی شعبے کے مسائل کے حل پر گفت و شنید کے سلسلے کو بڑھانے کے لیے وائس چانسلرز فورم کے اجلاس وقتاً فوقتاً منعقد کیے جاتے رہیں گے۔

ڈی ای او پرائمری کو گھوسٹ اساتذہ کیخلاف کارروائی مہنگی پڑگئی

دادو کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (ڈی ای او) پرائمری کو گھوسٹ اساتذہ کے خلاف کارروائی مہنگی پڑگئی۔

ذرائع محکمہ تعلیم کے مطابق دادو میں اساتذہ کے خلاف کارروائی کرنے والے ڈی ای او پرائمری غلام سرور ببر کے تبادلے کی سمری تیار کرلی گئی۔

ڈی ای او پرائمری کو کارروائی کرنے پر گھوسٹ اساتذہ نے دھمکیاں دی تھیں۔

غلام سرور ببر کو دھمکیاں دینے والے گھوسٹ اساتذہ کو گزشتہ دنوں معطل کیا گیا تھا، جنہیں ایک روز بعد ہی بحال کیا گیا۔

ذرائع محکمہ تعلیم کے مطابق معطل شدہ گھوسٹ اساتذہ کو انکوائری رپورٹ کے بغیر ہی بحال کیا گیا۔

ڈی ای او کے مطابق گھوسٹ اساتذہ نے مجھے ہٹانے کےلیے سیکرٹریٹ میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔

ذرائع محکمہ تعلیم سندھ کے مطابق ضلع میں 1100 سے زائد گھوسٹ اور جعلی اساتذہ ہیں، جن کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔

کراچی کے اسسٹنٹ کمشنر نے سوشل میڈیا پر توجہ حاصل کرلی

کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں اسسٹنٹ کمشنر کا چارج سنبھالنے والے حازم بنگوار نے چند دنوں میں ہی سوشل میڈیا کی توجہ حاصل کر لی ہے تاہم یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ ان کی بے مثال شخصیت کو وائرل ہونے میں اتنا عرصہ کیوں لگا۔ صرف ٹوئٹر پر نظر دوڑائی جائے تو کوئی انہیں ’اسٹائلش‘ کہہ رہا ہے تو کوئی ’فیشن ایبل‘۔ بعض نے یہ بھی کہا کہ ایک ایسی شخصیت کو سرکاری عہدے میں دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔وہ کراچی کی ضلعی انتظامیہ کا حصہ ہوتے ہوئے صفائی ستھرائی، تجاوزات کے خاتمے اور پرائس کنٹرول وغیرہ کیلئے دورے کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے شوق کیلئے موسیقی اور فلاحی کاموں کو بھی وقت دیتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کی کارکردگی اور قابلیت کی بجائے سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر پر سوال اٹھا رہے ہیں اور بظاہر ان کے کپڑوں نے انہیں ’کلچرل شاک‘ دیا ہے۔ حازم بنگوار نے بیرون ملک فیشن ڈیزائن اور مارکیٹنگ کے شعبے میں گریجویشن کیا اور بعد میں موسیقی کی صنعت سے وابستہ ہوگئے۔ تاہم ان کے ایک فیصلے نے ان کی زندگی کا رُخ پلٹ دیا۔ ان کے والد علی اکبر بنگوار پولیس کے سابق ڈی آئی جی رہ چکے ہیں جبکہ ان کی والدہ فیروز اکبر کا تعلق عراق سے ہے اور وہ آرکیٹیکٹ ہیں۔حازم بنگوار کا کہنا ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب پاکستان واپس آیا تو ’لوگ کہتے تھے تم یہاں ٹِک نہیں سکو گے۔ مگر میں نے ایس پی ایس سی (سندھ میں مقابلے کے) امتحانات دیئے اور پہلی ہی باری میں پاس ہوگیا۔‘وہ کہتے ہیں کہ امریکہ میں انھوں نے پِٹ بُل، جیسی جے اور نِکی میناج جیسے گلوکاروں کے ساتھ کام کیا مگر پھر ’اچانک دماغ میں بات آئی کہ دوسروں کے لیے کر سکتا ہوں تو اپنے لیے کیوں نہیں کرتا۔ یہاں میں نے پہلا گانا ’حرام‘ ریلیز کیا۔ کافی لوگوں نے اسے پسند کیا۔‘ یوں ’صبح سیکریٹریٹ اور شام کو اسٹوڈیو‘ زندگی کا معمول بن گیا۔ تاہم ’دونوں چیزیں بیلنس ہو رہی ہیں۔‘ ان کی فلاحی تنظیم ساحلی علاقوں کی صفائی سمیت دیگر ماحولیاتی منصوبوں پر کام کرتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم عوام کو سہولت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم تجاوزات ہٹاتے ہیں، اشیا کی قیمتیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہسپتالوں کے دورے کرتے ہیں۔ کسی کو ناجائز تنگ نہیں کرتے۔‘ اس سے قبل وہ اسسٹنٹ کمشنر ریوینیو سینٹرل بھی رہ چکے ہیں۔

انٹیلی جنس ایجنسی رپورٹ میں سرکاری سکولوں سے متعلق تہلکہ خیز انکشاف

انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ نے سرکاری سکولوں کا پول کھول دیا۔

انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سرکاری سکولوں سے 2022 میں لاکھوں کے کمپیوٹرز، ٹیبلٹ، فرنیچر اور سکیورٹی کیمرے چوری ہوئے۔ رپورٹ آتے ہی محکمہ تعلیم نے نوٹس لیتے ہوئے سکولوں کو قیمتی اشیاکی حفاظت کیلئے ضروری اقدامات اٹھانے کا حکم دے دیا۔

ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن پنجاب نے تمام ایجوکیشن اتھارٹیز کو ہدایات جاری کردی ہیں، اثاثہ جات کی چوری کی صورت میں ذمہ داران کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔

سکول سربراہان کا کہنا ہے کہ سکولوں کو فنڈز کی قلت کا سامناہے، 9 ماہ سے نان سیلری بجٹ نہیں مل رہا، سکولوں میں 80 فیصد سکیورٹی گارڈز کی آسامیاں خالی ہیں، اکثر سکولز کے مالی بطور سکیورٹی گارڈ ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔