موجودہ دبائو کے دور میں لوگ لوگوں کی سوچ اور ذہن کو بہتر بنانے کے لیے معیاری مواد لکھ رہے ہیں،”70 اور 80 کی دہائی میں مہ پا رہ صفدر جیسے لوگوں کو لوگ خاندان کا حصہ سمجھتے تھے۔”فرحت اللہ بابر

صحافی، ادیبوں، سیاست دانوں اور ماہرین تعلیم نے اتوار کے روز معروف نیوز کاسٹر، صحافی، مصنفہ اور شاعرہ ماہ پارہ صفدر کی لکھی ہوئی پہلی کتاب (میرا زمانہ میری کہانی )کی تقریب رونمائی کا خیر مقدم کیا ۔اتوار کے روز شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (ایس زیڈاے بی آئی ایس ٹی ) میں شہید بھٹو فانڈیشن اور آئی سی جت او پی کے زیر اہتمام ماہ پارہ صفدر کی سوانح عمری کی کتاب کی رونمائی کی تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔تقریب رونمائی میںارشد وحید نے بتایا کہ کتاب 464 صفحات اور تین حصوں پر مشتمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کتاب ماضی کی یاد تازہ کرتی ہے کیونکہ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان پچھلی دہائیوں کے لوگوں کے لیے خصوصی اہمیت کے حامل تھے ۔ انہوں نے کہا کہ اس کتاب نے 1960، 70 اور 80 کی دہائیوں کے ادور کے بارے میں اور بی بی سی ، بلوچستان میں بھی اپنے سفر کے بارے میں لکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ مصنفہ نے ایک انتہائی سادہ لیکن پرکشش تحریری انداز استعمال کیا ہے جو اس کے قارئین کو راغب کرتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مصنفہ نے اس وقت سرکاری میڈیا ہائوس میں صنفی امتیاز اور تعصب پر بھی بات کی ۔ انہوں نے تعریف کی کہ ماہ پارہ صفدر کی مختلف شاعروں کی شاعری کا استعمال متاثر کن ہے جیسا کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو پر لکھتے ہوئے اختر حسین جعفری کی نظم کا حوالہ دیا ہے۔

شہید بھٹو فانڈیشن کے سی ای او آصف خان نے مصنفہ کو اپنی ابتدائی زندگی سے لے کر پیشہ ورانہ کیریئر تک کے مختلف مسائل پر بہت متاثر کن انداز میں روشنی ڈالنے پر سراہا۔ انہوں نے ان کی 1965 اور 1971 کی جنگوں کی تصویر کشی کو بھی شاندار طریقے سے لکھنے پر سراہا۔ سینئر صحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے کہا کہ کتاب کا ٹائٹل انہیں ان کے بچپن میں واپس لے گیا۔ ”ماہ پارہ صفدر اپنے عہد میں رہتی تھیں اور وہ دور اب اپنے آپ میں رہتا ہے۔ یہ کتاب نوجوانوں اور آنے والی نسلوں کے لیے ملک کی تاریخ سے پردہ اٹھائے گی۔” سابق سینیٹر، پاکستان پیپلز پارٹی فرحت اللہ بابر نے اپنے کلیدی خطاب میں مصنفہ کو ان کی سوانح عمری کو کامیابی کے ساتھ لانچ کرنے پر مبارکباد دی۔

انہوں نے کہا کہ ان کی کتاب امید کی کرن ہے کہ موجودہ دبائو کے دور میں لوگ لوگوں کی سوچ اور ذہن کو بہتر بنانے کے لیے معیاری مواد لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 60 کی دہائی میں اور اس سے آگے ریڈیو، پی ٹی وی، پاکستان ٹائمز، نوائے وقت اور جنگ ہی عوام کے لیے معلومات کا واحد ذریعہ تھے۔ ”70 اور 80 کی دہائی میں مہ پارہ صفدر جیسے لوگوں کو لوگ خاندان کا حصہ سمجھتے تھے۔” انہوں نے مزید کہا کہ کتاب کا عنوان بتاتا ہے کہ یہ کوئی تحقیقی مقالہ یا تاریخ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسے مصنفہ کا بیان ہے جس نے 70 سے 80 کی دہائیوں میں تبدیلی کا مشاہدہ کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ماہ پارہ صفدر کی سوانح عمری 80 کی دہائی میں خواتین کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو اجاگر کرتی ہے۔

تاہم، بنیادی طور پر ان جیسے لوگوں کی جدوجہد کی وجہ سے صورتحال میں بہتری آئی ہے اور ملک کی خواتین نے اب تک جوسنگ میل عبور کئے ہیں وہ قابل تعریف ہیں ۔ اس موقع پر مصنفہ ماہ پارہ صفدر نے کہا کہ ان کی کتاب کے حوالے سے بہت پذیرائی ملی کیونکہ وہ اس طرح کی پذیرائی کی توقع نہیں کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کتاب میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ اس کتاب میں کئی دہائیوں کے دوران میڈیا ورکر کے ذاتی تجزیے شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ لوگوں نے انہیں احساس دلایا کہ یہ ان کی محبت، پیار، احترام اور ان جیسے لوگوں کے ساتھ وابستگی نے انہیں زندہ رکھا ہے اور وہ اپنے قارئین کو اس بات کی ضمانت دیتی ہیں کہ ان کی کتاب میں بیان کردہ تمام حقائق حقیقی ہیں اور اس میں بیان کردہ سچائی اس کی خوبی ہے کیونکہ انہوں نے غیر جانبداری کے ساتھ کتاب لکھنے کی کوشش کی۔

ماہ پارہ صفدر کی بہن پروفیسر طلعت نایاب زیدی نے بھی حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ماہ پارہ صفدر کی زندگی کے احوال اور بچپن کی یادوں کا ذکر کیا۔ ڈاکٹر طاہر نعیم ملک نے کہا کہ ان کی کتاب نے قدرت اللہ شہاب کے شہاب نامہ سے آگے پاکستان کا تعارف کرایا ہے اور اس نے تاریخی دور کے ان کی زندگی کے احوال کے ذریعے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔مصنفہ نے میڈیا اور شرکا کے متعدد سوالات کے جوابات د یئے ۔تقریب کے اختتام پر سی ای او شہید بھٹو فائونڈیشن نے آخر میں مصنفہ اور ان کی بہن کو یادگاری شیلڈز پیشکیں ۔